عدم برداشت کا کلچر اور پاکستان
مجھے تو یہ اعتراف کرنا ہی ہوگا کہ بحیثیت قوم ہمارے مزاج اور ہماری سوچ میں ابھی تک جمہوریت نہیں بسی۔ گھر میں اپنے والدین، بیوی بچوں اور دوستوں کا سلسلہ ہو یا دفتر ، کاروبار میں کام، ہم سےمعمولی سا اختلاف برداشت نہیں ہوتا ۔
تاریخی اعتبار سے ہند و پاک کے رہنے والے مختلف مذہبوں کے ماننے والے تھے، مختلف نسلوں اور قبایل سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح ان کا رہن سہن اور رسوم و رواج بھی جدا تھے ۔ وہ کبھی بھی مل جل کر، کامل یکسویی کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول نہ کرسکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے حاکموں نے بھی انہیں جدا رکھنے اور ان میں تقسیم کا بیج بوے رکھنے کو غنیمت سمجھا اور اپنے مفادات کے حصول کے واسطے لازم خیال کیا۔
شاید یہ ایک دوسرے سے جدا ہونے اور اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کی شدید خواہش ہے جو اپنے آپ کو درست ، پاک، پوتر اور دوسرے کو غلط سمجھنے پر مصر رہتی ہے۔ اگر پاکستان میں موجود ذات ،برادریوں اور قبایل کی فہرست بنایی جاے توعلم ہوگا کہ شاید اتنی متنوع جینیاتی مواد رکھنے والی قوم دنیا میں کویی نہیں۔ غور کریں کہ شمال، شمال مغرب سے آنے والے تمام فاتحین ، حملہ آور اپنے ساتھ قسم قسم کی انداز معاشرت، انداز حکمرانی اور سوچ و کردار کا انداز لے کر یہاں وارد ہوے اور یہاں بس رہے۔ہر آنے والا خود کو بہتر اور مقامیوں کو کمتر جانتا رہا اور ان کا تمسخر اڑاتا رہا۔ مقام افسوس ہے کہ بعض برادریوں میں ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
دوسروں کے مذہبی، نسلی، لسانی اور تہذیبی اطوار کو یکسر غلط ماننا اور ان کی تضحیک کرنے کا یہ انداز کچھ اس طرح ہمارے ڈی این اے تک میں سرایت کرگیا ہے کہ اسے ختم کرنا شاید بہت مشکل ہوگا۔